بابری مسجد معاملہ پر فیصلہ کے وقت کچھ ایسا تھا گجرات فساد متاثرین کے خوف کا عالم، بیان کیا درد


ہماری دنیا بیورو
احمدآباد،12نومبر۔احمد آباد کے نرودا پاٹیا میں رہنے والے 45 سالہ سلیم شیخ کا داماد 8 نومبر کی رات اچانک ان کے گھر پہنچ گیا۔ شیخ کی 23 سالہ بیٹی کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی، جب وہ دوا لے رہی تھی، اسی دوران اس کا شوہر پہنچا اور اس سے بیگ میں سامان پیک کرنے کو کہا۔ داماد نے شیخ کو بتایا کہ خبر آئی ہے کہ سپریم کورٹ اگلی صبح 9 نومبر کو اجودھیا معاملے میں فیصلہ دینے والا ہے۔ اس کے بعد وہ شہر کے گومتی پور علاقے میں اپنی بیوی کے ساتھ چلا گیا، اس کا کہنا تھا کہ وہ وہاں پر محفوظ رہے گی۔
خوف محسوس کرتے ہوئے شیخ نے فوری طور پر اپنے 20 سالہ بیٹے اور 19 سال کی دوسری بیٹی کو جوہاپورا علاقے میں واقع اپنے بھائی کے گھر بھیج دیا۔ غور طلب ہے کہ جوہاپورا گجرات میں مسلمانوں کا سب سے بڑا علاقہ ہے۔ ایسی ہی کہانی 57 سال کے ندیم سید کی ہے۔ نرودا پاٹیا کا باشندہ رہ چکے ندیم نے بھی 8 نومبر کی رات اپنے 18 رشتہ داروں کے ساتھ احمد آباد کے سٹیزن نگر علاقے کے ایک ہوٹل میں لے کر آئے تھے۔


بڑھ سکتی ہیں اویسی کی مشکلیں، اس ریاست میں درج ہوا غداری کا مقدمہ


مہاراشٹر میں سیاسی ڈرامہ جاری، پل پل بدلتے حالات


بابری مسجد تنازعہ: مولانا اصغرسلفی نے کیا کہہ دیا کہ سوشل میڈیا پران کا بیان ہونے لگا وائرل



شیخ اور سید احمد آباد میں واقع نرودا پاٹیا علاقے کے ان 400 خاندانوں میں شمار ہیں، جنہوں نے اجودھیا معاملے میں فیصلہ آنے سے پہلے اپنا گھر چھوڑ کرمحفوظ علاقوں میں پناہ لے لی۔غور طلب ہے کہ 2002 فسادات کے دوران نرودا پاٹیا میں کافی مسلمان مارے گئے تھے۔ نرودا پاٹیا میں 1100 مسلمگھر ہیں جہاں 6500 سے زیادہ لوگوں کی آبادی ہے۔یہ علاقہ بی آر ٹی ایس کوریڈور کی وجہ سے دو حصوں میں تقسیم ہوگیا ہے۔ یہاں کے لوگ آس پاس کے علاقوں میں فیکٹریوں کے اندر اندر بطور ملازم کام کرتے ہیں۔ 28 فروری 2002 کو بھیڑ نے اس مسلم اکثریتی علاقے پر حملہ بول دیا تھا اور 97 افراد کو قتل کر ڈالا۔ اس دوران لوٹ مار اور عصمت دری کی بھی خبریں آئیں۔ 2002 گجرات فسادات کے دوران یہ سب سے بڑا قتل عام تھا۔
2002 کا خوف ایسا تھا کہ 8 نومبر کو جیسے ہی ہفتے کی صبح اجودھیا معاملے میں فیصلے کی خبر شائع ہوئی۔یہاں کے باشندے نے اپنے اپنے گھروںپر تالا لگا کر رات کو ہی رشتہ داروں کے یہاں چلے گئے۔ نرودا پاٹیا میں رہنے والے سلیم شیخ نے بتایا کہ جب بھی کچھ بڑا ہونے والا ہوتا ہے تو نرودا پاٹیا میں رہنے والے خاندان ہمیشہ محفوظ جگہوں پر منتقل ہوجاتے ہیں۔ 2002 میں اکشر دھام حملہ، 2008 میں سیریل بلاسٹ اور 2010 میں الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے دوران ایسا (لوگوں کا محفوظ جگہوں پرچلے جانا) ہو چکا ہے۔ کئی دہائیوں تک یہاں رہنے کے باوجود خاندان خود کو علاقے میں محفوظ محسوس نہیں کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ شیخ نرودا پاٹیا میں فسادات کے دوران ہوئے قتل عام کے چشم دید گواہ ہیں، ان کی وجہ سے ہی اس وقت کے وزیر اعلی نریندر مودی کی حکومت میں خواتین واطفال کی ترقی کی وزیر مایا کوڈنانی کو فسادات کا مجرم سمجھا گیا۔
'دی انڈین ایکسپریس' سے بات چیت میں فرنیچر کا کاروبار کرنے والے ندیم سید نے بتایا کہ انہوں نے 2002 فسادات کے بعد نرودا پاٹیا چھوڑ دیا ہے۔سید بتاتے ہیں کہ فسادات کے بعد میں 15 دن تک اپنے بیوی اور بچوں سے دور رہا، کیونکہ انہیں الگ الگ ریلیف کیمپ میں بھیج دیا گیا تھا۔ میرا اس دن نرودا پاٹیا سے یقین اٹھ گیا اور میں سٹیزن نگر میں شفٹ ہو گیا۔تاہم، آج بھی میرے بہت رشتہ دار وہیں رہتے ہیں اور جب بھی وہ غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں، میں انہیں اپنے یہاں لے کر آجاتا ہوں۔


Popular posts
 جشن تکمیل حفظ قرآن:یہ بچے بنے حافظ قرآن، جان کر آپ کو بھی ہوگا فخر،والدین کو لوگ پیش کررہے مبارکباد
Image
تازہ ترین: جے این یو طلبائ کے احتجاج کے سامنے جھک گئی حکومت، فرمان واپس
Image
लखनऊ के जिलाधिकारी अभिषेक प्रकाश ने आदेश में कहा कि लखनऊ के सभी सिनेमा हॉल, मल्टीप्लेक्स, डिस्को क्लब, स्विमिंग पूल और जिमखाने आगामी 31 मार्च तक बंद किए जाएं। उन्होंने कहा कि यह आदेश तत्काल प्रभाव से लागू होंगे। आदेश का उल्लंघन करने पर भारतीय दंड संहिता की धारा 188 के तहत कार्रवाई की जाएगी।
جانئے! نظر ثانی کی عرضی داخل کرنے کے بارے میں کیا کہتا ہے قانون
Image
بابری مسجد فیصلہ:مولانا ارشد مدنی نے طلب کی مجلس شوریٰ کی ایمرجنسی میٹنگ، کل کریں گے پریس کانفرنس
Image