مقدمے میں تمام اہم فریقوں نے اس فیصلے کا احترام کرتے ہوئے مسلمانوں کو مایوس نہ ہونے اور صبر و تحمل کے ساتھ ملک میں امن و امان کی اپیل کی جس پر مسلمانوں نے آمنا و صدقنا کہا۔بسا اوقات انسان کی زندگی میں ایسے متعدد مواقع آتے ہیں جہاں وہ صبرکوہی اپنا سب سے بڑا ہتھیار تصور کرتا ہے۔
عطا بنارسی
بالآخر عدالت عظمیٰ نے بابری مسجد قضیہ پر اپنا تاریخی فیصلہ سنا دیا۔مسجد کی متنازعہ زمین رام للا نیاس کے حوالے کرتے ہوئے رام مندر کی تعمیر کے لئے ٹرسٹ بنانے کی ہدایت بھی دے دی جبکہ مسلمانوں کو متبادل کے طور پرمسجد کے لئے پانچ ایکڑ زمین دینے کا بھی فیصلہ صادرفرمایا ہے۔اس مکمل فیصلے پر اگر غور کیا جائے توعرصہ دراز سے جاری تنازعہ میں عدالت عظمیٰ کا یہ فیصلہ غیر متوقع نہیںہےبلکہ ایک طرح سے مسلمانوں کے ذہن میں فیصلے کی جو تصویر تھی بس اس کو عدالت عظمیٰ نے حقیقت کا جامہ پہنا دیا ہے۔گزشتہ کئی مہینوں سے ملک میں جو ماحول بن گیا تھا اور بابری مسجد تنازعہ کے سلسلے میں جس طرح سپریم کورٹ نے دونوں فریقکو مصالحت اور سمجھوتہ کے ذریعہ کوئی حتمی فیصلہ کرنے کی ہدایت دی تھی اس سے اندازہ ہو گیا تھا کہ فیصلہ کیا ہونے والا ہے ۔بہر حال اس فیصلے سے قبل پورے ملک کا مسلمان ذہنی طور پر اس طرح کے فیصلے کے لئے تیار تھا۔سپریم کورٹ کے فیصلے کے آخری دنوں میں جس طرح امن و امان کی اپیلوں کا سیلاب آن پڑا تھا اس سے بھی توقع یہی کی جا رہی تھی کہ فیصلہ سپریم کورٹ کا کچھ ایسا ہی آنے والا ہے۔
سپریم کورٹ نے جو فیصلہ سنایا ہے اس سے جیت تو یقینا مندر فریق کی ہوئی ہے لیکن ملک کے مسلمانوں نے اپنے خلاف آئے فیصلے پر جس صبر و استقلال اور امن کا مظاہرہ کیا ہے وہ قابل تعریف ہے۔مسلمانوں کے لئے فیصلہ گرچہ مایوس کن ہے مگر حسب وعدہ اس کا احترام لازمی ہے۔فیصلے کے منظر عام پر آنے کے بعد مسلمانوں نے اپنے پر امن رد عمل کے ذریعہ دنیا کو یہ پیغام بھی دے دیا کہ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ گرچہ ہماری منشا کے موافق نہیں ہے مگر ہمیں ملک کے عدلیہ کا احترام کرنا ہے ،ملک کے قانون پر ہمارا مکمل اعتماد ہے ،اس لئے فیصلہ جو بھی ہے وہ قبول ہے۔مقدمے میں اہم فریق سنی وقف بورڈ ، مسلم پرسنل لاءبورڈ،جمعیة علمائے ہند نے پوری جدو جہد اور خلوص نیت کے ساتھ آخری دم تک مسجد کی بحالی کے لئے قانونی لڑائی لڑتے رہے، جہاں تک ممکن ہو سکا انہوںنے شواہد اور دلائل سے عدالت کو مطمئن کرنے کی کوشش کی مگر فیصلہ ان کے برعکس آیا ۔جو مایوس کن تو ضرور ہے مگر ہمت ہارنے یا افسردہ ہونے کا وقت ہرگز نہیں ہے۔مقدمے میں تمام اہم فریقوں نے اس فیصلے کا احترام کرتے ہوئے مسلمانوں کو مایوس نہ ہونے اور صبر و تحمل کے ساتھ ملک میں امن و امان کی اپیل کی جس پر مسلمانوں نے آمنا و صدقنا کہا۔بسا اوقات انسان کی زندگی میں ایسے متعدد مواقع آتے ہیں جہاں وہ صبرکوہی اپنا سب سے بڑا ہتھیار تصور کرتا ہے۔کچھ ایسے مواقع بھی آتے ہیں جہاں وہ عملی طور پر کچھ کرنے کی حالت میں ہوتا ہے مگر پھر بھی وہ صبر کرتا ہے۔ہندوستانی مسلمانوں کے لئے یہ وقت بھی کچھ ایسا ہی ہے ۔کیونکہ یہ ہمارا بنیادی عقیدہ ہے کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔
بابری مسجد۔ رام جنم بھومی تنازعہ کے صدیوں پرانے معاملے میں سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کی بنچ نے چالیس دنوں کی روزانہ سماعت کے بعدمتفقہ طور پر اپنا فیصلہ سنایاہے۔عدالت عظمیٰ نے مندر معاملے کے اہم فریق نرموہی اکھاڑہ کے دعوے کو خارج کر دیا ،شیعہ وقف بورڈ کی عرضی کو بھی مسترد کرتے ہوئے رام للا براجمان اور سنی وقف بورڈ کو ہی اہم فریق تسلیم کیا ہے۔عدالت عظمیٰ نے اس معاملے میں 2010میں دیئے گئے الہ آباد ہائی کورٹ کے ذریعہ متنازعہ اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کے فیصلے کو بھی غیر منطقی قرار دیا ۔آخرمیں رام للا وراجمان کے حق میں فیصلہ کرتے ہوئے متنازعہ زمین مندر کے حوالے کر دیا ۔۔چیف جسٹس رنجن گگوئی ، جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ،اورجسٹس ایس عبد النظیر پر مشتمل آئینی بنچ نے اس حساس معاملے میں یہ بھی تسلیم کیا کہ شواہد اور دلائل سے یہ ثابت نہیں ہوا کہ بابری مسجد رام مندر کو منہدم کر کے تعمیر کی گئی لیکن یہ بھی تسلیم کیا گیا کہ بابری مسجد خالی زمین پر تعمیر نہیں کی گئی ۔ساتھ ہی عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے یہ بھی کہا کہ 1949میں مسجد کے مرکزی گنبد کے نیچے مورتیوں کا رکھا جانا ایک غلط اور مسجد کے تقدس کو پامال کرنا تھا اور 1992میں شرپسندوںکے ذریعہ مسجد کوڈھایا جانا بھی قانون کی خلاف ورزی تھی۔سپریم کورٹ نے برسوں پرانے معاملے کو چالیس دنوں کی میراتھن سماعت کے بعد اب انجام تک پہنچا دیا ہے۔ضروری نہیں کہ فیصلے سے تمام فریق متفق ہوں۔یہ حقیقت بھی ہے کہ دو فریقوں کے درمیان جب کوئی فیصلہ ہوتا ہے تو ایک فریق کو یقینا اپنے حق سے دستبردار ہونا پڑتا ہے ،فیصلہ اس کے لئے مایوس کن ضرور ہوتا ،یہ ضروری بھی نہیں کہ اس کی نظر میں فیصلہ درست ہو مگر ایک معاشرے اور سماج میں رہنے اور عدالت کی حیثیت کو قبول کرتے ہوئے اسے فیصلے پر سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے۔بابری مسجد قضیہ میں بھی عدالت عظمیٰ کا فیصلہ گر چہ مسلمانوں کی منشا کے موافق نہیں آیا مگر ایک جمہوری ملک کے امن پسند شہری ہونے کی وجہ سے فیصلے کو قبول کرنا ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے۔ملک کے تمام مسلمانوں نے اس کا وعدہ بھی کیا تھا۔چنانچہ فیصلے کے بعد حسب وعدہ تمام مسلمانوں نے پورے ملک میں امن و امان کے ساتھ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو تسلیم کرتے ہوئے برادران وطن کے ساتھ بھائی چارے اور اتحاد و اتفاق کابے مثال نظیر پیش کیا ہے۔اپنے اس عمل سے مسلمانوں نے حکومت ہند ،انتظامیہ بلکہ پوری دنیا کو یہ پیغام دے دیا ہے کہ ہمارا جمہوریت پر اعتماد کتنا مضبوط ہے اور عدالت عالیہ کے تئیں ہمارے دل میں کتنا احترام ہے۔
در اصل بابری مسجد تنازعہ اس موڑ پر پہنچ چکا تھا جہاں اس کا انجام تک پہنچ جانا ہی نا گزیر تھا ۔کیونکہ یہ مسئلہ صرف اب ایک متنازعہ مسئلہ نہیں رہ گیا تھا بلکہ یہ ملک کا سیاسی محور بھی بن چکا تھا ،نہ جانے کتنے فسادات ہوئے اور نہ جانے کتنے گھر اور بستیاں خاک ہو گئیں۔کتنی جانیں چلی گئیں،کتنے گھر برباد اور خاندان تباہ ہو گئے۔اس قضیے کے پس پردہ ملک کی سیاست کروٹیں لیتی رہی،متعدد تنظیمیں (ہندو اور مسلم دونوں) اس قضیئے کی آڑ میںاپنی دکان چمکاتی رہیں،سیاست داں اپنی سیاسی روٹیاں سینکتے رہے مگر بس اب اور نہیں۔عدالت عظمیٰ کے فیصلے سے کون کتنا خوش ہوا اور کونکتنا مایوس؟اس سے قطع نظر بہر حال یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ آج عدالت عظمیٰ نے صدیوں سے چلے آر رہے اس تنازعہ کو انجام تک پہنچا دیا ہے جو عام مسلمانوں کے لئے اطمینان بخش تو نہیں مگر تسلی بخش ضرور ہے اور یہ امید ہے کہ اب اس تنازعہ پر دنگے اور فسادات نہیں ہوں گے۔سیاسی روٹیاں سیکنے کا سلسلہ بھی بند ہوگا ،مسلمان مسجد ۔مندر تنازعہ سے پرے اب اپنے روشن مستقبل کی فکر کریں گے۔مسلم پرسنل لاءبورڈ اور ملی جماعتیں بھی فیصلے سے سبق لیتے ہوئے ملت اسلامیہ ہند کے بہتر مستقبل کا لائحہ عمل طے کرنے کی جانب توجہ مرکوز کریں گے۔
91-9718481513