یہ واضح ہے کہ اس ہمالیائی ناانصافی کے سامنے موجودہ حالات میں مسلمانان ہند کے لئے اسے صبر اور خاموشی سے سہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ پر امن احتجاج کا حق بھی ہم سے چھین لیا گیا ہے اور یہ بھی اعلان ہو گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر بھی اگر کوئی قابل اعتراض مواد ڈالتا ہے تو اسے جیل جانا ہو گا بلکہ نیشنل سیکیوریٹی ایکٹ کے تحت اس کی گرفتاری ہو گی جس میں دو سال تک ضمانت نہیں ہوتی۔ اس وقت بہترین مشورہ یہی ہے کہ مسلمانان ہند صبر کریں اور اللہ پاک سے دعاءکریں کہ حالات بدلیں اور سب کو حکمت اور صبر سے نوازیں۔
ڈاکٹر ظفرالاسلام خاں
ہفتہ 9نومبر کو بابری مسجد کے بارے میں آنے والا سپریم کورٹ کا فیصلہ سب کے لئے باعث تعجب تھا، سوائے سنگھ پریوار کے۔ اس سے پہلے بھی سپریم کورٹ کے بعض فیصلے لوگوں کو اچنبھے میں ڈال چکے ہیں، جیسے اندرا گاندھی کے زمانے میں ایمرجنسی کی تایید ، 1996کے ایک فیصلے میں ہندوتوا کو ایک 'طریقہ زندگی' گردانناجس کی وجہ سے ہندتوا کو الیکشن میں استعمال کرنے والا قانونی شکنجے سے بچ جاتا ہے اور پارلیمنٹ حملے کے ملزم افضل گرو کو قوم کے “اجتماعی ضمیر” کے احترام میں پھانسی کی سزا دے دی۔
موجودہ فیصلے نے صرف مسلمانوں کو ہی محروم نہیں کیا ہے، بلکہ رام جنم بھومی کے اصلی ہندو مدعی یعنی نرموہی اکھاڑے کو بھی درکنار کر دیا ہے۔ اس کے بجائے وی ایچ پی/آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم رام جنم بھومی نیاس کو،جسے سنگھ پریوار نے جنوری 1993 میں کھڑا کیا تھا، بابری مسجد کی ساری 2.77ایکڑ زمین دے دی گئی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ انعام انہیں کودے دیا گیا ہے جنہوں نے دسمبر 1992 میں بابری مسجد کو ڈھایا تھا۔
بہت عرصے سےمسلم تنظیمیں کہتی آ رہی ہیں کہ ہم سپریم کورٹ کا آخری فیصلہ مانیں گے جبکہ ہندوتوادی تنظیمیں کہتی رہی ہیں کہ اگر فیصلہ ان کے خلاف آیا تو وہ اسے نہیں مانیں گی۔ لیکن فیصلہ آنے کے صرف چند روز پہلے سے آر ایس ایس اور اس کی تابع ہندوتوادی تنظیموں نے امن و یکجہتی کا بین بجانا شروع کر دیا۔ اس سے پہلے جب انہیں کی صف میں شامل لوگ ہجومی قتل (لنچنگ) کا ارتکاب کر رہے تھے تو ان میں سے کسی نے نہ ان کی نکیرکی تھی اور نہ ہی ان سے تبرا کیا تھا۔ واعظوں کے اس سرکس میں وزیراعظم نریندر مودی بھی شامل ہو گئے جبکہ ان کے وزیراعلی رہتے ہوئے ہونے والے گجرات 2002 فسادات کے بارے میں ان کے منھ سے آج تک افسوس کا ایک لفظ بھی غلطی سے نہیں نکلا۔ا ب مسلم تنظیموں کومجبور کیاگیا کہ وہ اجتماعات منعقد کریں اور بیانات کا ایک سیلاب جاری کریں جس میں عوام سے اپیلیں کی گئیں کہ وہ امن وامان قائم رکھیں اور فیصلے کو جیسا بھی ہو قبول کریں۔ یقینا یہ سب ،کچھ خفیہ طاقتوں کے اشارے پر ہو رہا تھا۔
صحافتی رپورٹوں کے مطابق، سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ مسجد ایک مندر کی جگہ پر بنائی گئی تھی ،جبکہ اسی فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی کھدائی کی رپورٹ سے یہ بات حتمی طور پر ثابت نہیں ہوئی ہے۔ اسی طرح سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہاہے کہ کسی مذہبی عقیدے کے صحیح ہونے کے بارے میں رائے دینا کورٹ کے اختیارات سے باہر ہے لیکن اسی کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھا ہے کہ جہاں رام للا براجمان ہیں وہ جگہ ان کی ملکیت ہے۔ کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا ہے کہ اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ ہندوو ¿ں کا اعتقاد حقیقی نہیں ہے۔ کورٹ نے اپنے فیصلے میں آر ایس ایس کی ذیلی تنظیم (رام جنم بھومی نیاس) کے مفروضوں پر مبنی دعوے کو قبول کیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا ہےکہ مسلم فریق متنازع زمین پر اپنے قبضے کی دلیل دینے میں ناکام رہا ہے، جبکہ فیصلہ یہ بھی کہتا ہے کہ بادشاہ بابر کے زمانے میں میر باقی نے اس مسجد کی تعمیر کی تھی۔
سپریم کورٹ نے کمال فیاضی سے سنی وقف بورڈ کو پانچ ایکڑ زمین مسجد بنانے کے لئے دی ہے جبکہ یہ زمین بھی مسلمانوں کی ہی ہے اور یہ وہی ہے جسکو وی پی سنگھ حکومت نے اکتوبر 1990 میں ایکوائر کیا تھا۔ حکومتی ادارہ ہونے کے ناطے سنی وقت بورڈ یہ عطیہ قبول کر لے گا لیکن مسلم سماج اس کو کبھی قبول نہیں کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جب نیشنل سیکیوریٹی ایڈوائزر اجیت ڈوبھال کے یہاں سے10 نومبر کو میٹنگ اور لنچ کے لئے دعوت نامہ اور فون آیا تو میں نے اسے قبول کرنے سے فوراً نکار کردیا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے ا ٓنے سے پہلے شمالی ہندوستان کے ایک بڑے علاقے میں کرفیو نافذ کر دیا گیا، اجودھیا کو فوجی چھاونی بنا دیا گیا، اترپردیش میں تقریباً چھ ہزار لوگوں کو 'لال کارڈ' دیا گیا کہ وہ کوئی دنگا نہ کریں اور تقریباً 60لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ ابھی نہیں معلوم کہ یہ لوگ کون ہیں، لیکن تخمینہ یہی ہے کہ ان کی اکثریت مسلمان ہی ہو گی۔ یوپی میں اسکولوں اور کالجوں کو نہ صرف بند کر دیا گیا ہے بلکہ ان میں سے بعض کو فیصلے کے بعد ہونےوالے کسی امکانی احتجاج میں گرفتار ہونے والوں کے لئے جیل میں بدل دیا گیا ہے۔ اندازہ یہی ہے کہ احتجاج کرنے والے مسلمان ہی ہوں گے۔
ہفتوں سے اشارے مل رہے تھے کہ کوئی کھچڑی پک رہی ہے۔ اترپردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے 5اکتوبر کو کہاکہ بہت اچھی خوشخبری آپ کا انتظار کر رہی ہے۔اس کے اگلے دن ان کی پارٹی کے ممبر پارلیمنٹ ساکشی مہاراج نے کہا کہ رام مندر کی تعمیر 6دسمبر سے شروع ہو جائے گی۔ پھرفیصلہ آنے سے دو روز قبل مرکزی وزارت داخلہ نے تمام صوبوں سے کہاکہ فیصلے کے اعلان سے پہلے امن کی ترتیبات تیار کر لیں۔
یہ واضح ہے کہ اس ہمالیائی ناانصافی کے سامنے موجودہ حالات میں مسلمانان ہند کے لئے اسے صبر اور خاموشی سے سہنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ پر امن احتجاج کا حق بھی ہم سے چھین لیا گیا ہے اور یہ بھی اعلان ہو گیا ہے کہ سوشل میڈیا پر بھی اگر کوئی قابل اعتراض مواد ڈالتا ہے تو اسے جیل جانا ہو گا بلکہ نیشنل سیکیوریٹی ایکٹ کے تحت اس کی گرفتاری ہو گی جس میں دو سال تک ضمانت نہیں ہوتی۔ اس وقت بہترین مشورہ یہی ہے کہ مسلمانان ہند صبر کریں اور اللہ پاک سے دعاءکریں کہ حالات بدلیں اور سب کو حکمت اور صبر سے نوازیں۔مسلم پرسنل لا بورڈ نے کہا ہے کہ اس فیصلے کے خلاف وہ ایک بڑی بنچ کے سامنے اپیل کرے گا۔ اس اپیل کے بارے میں ہمیں بہت خوش فہمی نہیں ہے۔ ہمیں موجودہ فیصلے کا ان معنوں میں استقبال کرنا چاہئے کہ ایک طویل رستے ہوئے زخم کا حل بالآخر نکالا گیا ہے جو چار دہوں سے ہماری توانائیاں چوس رہا تھا۔ موجودہ حل ہماری پسند کا نہیں ہے لیکن مسئلے کے کسی بھی حل سے مسلم سماج اور ملک کا صرف بھلا ہو گا۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر مذکورہ قطعہ اراضی ہمیں مل بھی جائے تو موجودہ نفرت بھرے ماحول میں ہم وہاں مسجد نہیں بنا سکتے ہیں اور اگر بنا بھی لی تو ہم وہاں نماز نہیں پڑھ سکتے ہیں۔ اس مسئلے کابہتر حل یہ ہوتا کہ اس جگہ کو فرقہ وارانہ یکجہتی کا میوزیم یا بچوں کا پارک بنا دیا جاتا۔
ہمیں اس ظلم عظیم کو کبھی نہیں بھولناہے بلکہ ملک اور اکثریت کواسے مسلسل یاد دلاتے رہنا ہے ، بالکل اسی طرح جس طرح یہودی، جرمن نازیوں کے ہاتھوں ہونے والے ہولوکاسٹ کو دنیا کو روز یاد دلاتے ہیں اور اس سے بہت سیاسی و اقتصادی فائدے اپنے اور اسرائیل کے لئے حاصل کرتے ہیں۔