ہماری دنیا بیورو
نئی دہلی: ملک کے موجودہ حالات کے پیش نظرآج مرکزی دفترجمعیةعلماءہند کے مفتی کفایت اللہ میٹنگ ہال میں جمعیةعلماءہند کی مجلس عاملہ کا ایک اہم اجلاس زیر صدارت مولانا سید ارشد مدنی منعقد ہوا ، اجلاس مجلس عاملہ کی کارروائی کا آغاز ناظم عمومی مولانا عبدالعلیم فاروقی کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ اجلاس میں بابری مسجد مقدمہ ، این آر سی، کشمیر ،آسام شہریت معاملہ سے متعلق پیش رفت کا جائزہ لیا گیا اور ملک کے موجودہ حالات اور قانون وانتظام کی بدتر صورت حال پر گہری تشویش کا اظہار کیاگیا ساتھ ہی دوسرے اہم ملی ،سماجی اورعالم عرب کے ایشوز پر تفصیل سے غوروخوض ہوا ،اس اہم اجلاس میںممبران نے ملک کے موجودہ حالات پر کھل کر تبادلہ خیال کیا۔اس پس منظر میں مولانا مدنی نے کہا کہ ملک میںجس طرح کے حالات پیداکردیئے گئے ہیں اس میں کشمیر سے لے کرکنیاکماری تک لوگ خوف وہراس اور مایوسی میںمبتلاہوچکے ہیں ، ایک طرف جہاں آئین وقانون کی بالادستی کو ختم کرنے کی سازش ہورہی ہے وہیں عدل وانصاف کی روشن روایت کوبھی ختم کردینے کی خطرناک روش اختیارکی جارہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان صدیوں سے اپنی مذہبی غیر جانبداری اور رواداری کے لئے مشہورہے ،سیکولرازم اور رواداری نہ صرف ہندوستان کی شناخت ہے بلکہ یہی اس کے آئین کی روح بھی ہے ،آج ملک میں اقلیتوں خاص طورسے مسلمانوں کو ان کی مذہبی شناخت کی بنیادپر نشانہ بنایا جارہا ہے جس کی وجہ سے اب تک بہت سے لوگ اپنی زندگی سے ہاتھ دھوبیٹھے ہیں انہوں نے انتباہ دیا کہ اگر آئین اور قانون کی بالادستی قائم نہیں رہی تو یہ ملک کے لئے انتہائی نقصان دہ ہوگا ،مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیةعلماءہند اپنے قیام سے آج تک ملک میں اتحاد ویکجہتی ، امن وآشتی اور بھائی چارہ کے فروغ کے لئے سرگرم رہی ہے ،جمعیةعلماءہند کا یہ مشن آج اور بھی ضروری ہوگیا ہے ، کیونکہ ایک خاص سوچ اور نظریہ کی متحمل سیاسی قوتیں ملک کو سیکولرازم اور مذہبی غیر جانبداری کی راہ سے ہٹاکر پورے ملک میں نفرت اورفرقہ پرستی کا ماحول پیداکرنے کے درپے ہیں ،انہوں نے کہا کہ یہاں کے لوگ صدیوں سے مل جل کر ساتھ رہتے آئے ہیں،اس ملک کی مٹی میں ہمارے بزرگوں کا لہو شامل ہے،ان کی قربانیاں ہمارے لئے مشعل راہ ہیں،ملک کی اقلیتوں کو مطمئن کرنا وزیر اعظم کی ذمہ داری ہے کیوں کہ وزیر اعظم پورے ملک کا ہوتا ہے نہ کہ کسی پارٹی کا ، آج ہمارے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ ملک کسی خاص مذہب کے نظریہ کی بینادپر چلے گا یا آئین و سیکولرازم کے اصولوں پر ؟ مولانامدنی نے انتباہ دیا کہ ہندوستان میں کسی ایک نظریہ اور مذہب کی بالادستی چلنے والی نہیں ہے ،یہ ملک سب کا ہے یہ ہمیشہ سے گنگاجمنی تہذیب کا علمبردار رہاہے اور اسی راہ پر چل کر ہی ملک کی ترقی ممکن ہے ۔ماب لنچنگ کے واقعات سپریم کورٹ کی سخت ہدایت کے بعد بھی رکنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔اس کا صاف مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جو لوگ ایسا کررہے ہیں انہیں سیاسی تحفظ اور پشت پناہی حاصل ہے ِ؟صرف اتنا ہی نہیں بلکہ ضمانت ملنے پر ان ملزمین کاسیاسی لوگ استقبال کرتے ہیں انہوں نے سوال کیاکہ کیا یہی سب کاساتھ سب کاوکاس اورسب کاوشواش ہے؟ ۔مولانا مدنی نے کہا کہ ہجومی تشدد ایک مذہبی مسئلہ ہے جس میںمذہبی بنیادپر لوگوں کوتشدداور بربریت کانشانہ بنایا جارہا ہے۔اس لئے تمام سیاسی پارٹیوں خاص کر وہ پارٹیاں جو اپنے آپ کو سیکولر کہتی ہیں میدان عمل میں کھل کر سامنے آئیں اور اس کے خلاف قانون سازی کے لئے عملی اقدام کریں، صرف مذمتی بیان کافی نہیں۔مولانا مدنی نے کہا کہ ملک کے حالات اس وقت انتہائی خراب ہیں بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ اس طرح کے حالات ملک کے تقسیم کے وقت بھی نہیں تھے۔مولانا مدنی نے اس پس منظر میں کہا کہ ان حالات میں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے ،اس ملک کی مٹی میں محبت کا خمیرشامل ہے۔یہی وجہ ہے مختلف مذاہب ،تہذیبوں اور زبانوں کے لوگ صدیوں سے پیار محبت کے ساتھ رہ رہے ہیں،ہمارا اختلاف اور لڑائی کسی سیاسی پارٹی سے نہیں ،صرف ان طاقتوں سے ہے جنہوں نے ملک کی سیکولر قدروں کو پامال کرکے ظلم وجارحیت کو اپنا شیوہ بنالیا ہے ، لیکن افسوس کہ عوام کے ذہنوں میں پہلے گائے کے نام پر اور اب جے شری رام کے نام پر مذہبی جنون پیدا کرنے کی کوشش ہورہی ہے ۔مگرامید افزابات یہ ہے کہ تمام ریشہ دوانیوں کے باوجود ملک کی اکثریت فرقہ پرستی کے خلاف ہے۔مولانا مدنی نے کہا کہ افسوس اس پر ہے کہ سپریم کورٹ کے سخت ہدایت کے بعد بھی مرکزی سرکار قانون سازی نہیں کررہی ہے اور بے گناہوں کی ہلاکت کو روکنے کے لئے مو ¿ثر اقدامات سے پہلو تہی کررہی ہے۔ملک کے حالات بلاشبہ مایوس کن اوربڑی حدتک خطرناک ہیں لیکن ہمیں مایوس ہونے کی ہر گز ضرورت نہیںہے کیونکہ ہم ایک زندہ قوم ہیںاورزندہ قومیںحالات کے رحم وکرم پرنہیں رہتی بلکہ اپنے کرداروعمل سے حالات کا رخ پھیردیتی ہیں اگر عزم مضبوط ہو تو مایوسی کے انہیں اندھیروں سے امید کی نئی شمعیں روشن ہوسکتی ہیں۔
اس اہم اجلاس میں جو اہم تجاویز منظورہوئیں اس کی تفصیل یہ ہے ۔
مولانا سید ارشد مدنی نے وقف بورڈ کے چیئر مین کو اس کی حیثیت یاد دلادی
تجویز نمبر ۱ بابری مسجد تنازعہ سے متعلق اس قرارداد میں کہاگیا کہ جمعیةعلماء ہند کی مجلس عاملہ کا یہ اجلاس مورخہ 18اکتوبر 2019بابری مسجد کے معاملہ پر غوروفکر کے بعد بابری مسجد کی تاریخی ، قانونی اور شرعی حیثیت کے پیش نظر یہ فیصلہ کرتی ہے کہ بابری مسجد قانون اور عدل وانصاف کی نظرمیں ایک مسجد تھی اور آج بھی شرعی لحاظ سے مسجد ہے اور قیامت تک مسجد ہی رہے گی ، چاہئے بزورحکومت وطاقت اسے کوئی بھی شکل اور نام دیدیا جائے ، اس لئے کسی فرد اور جماعت کو یہ حق نہیںہے کہ کسی متبادل کی امید میں مسجد سے دستبردارہوجائے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کا یہ نقطہ نظر پوری طرح تاریخی حقائق وشواہد پر مبنی ہے کہ بابری مسجد کسی مندرکو منہدم کرکے یا کسی مندرکی جگہ پر تعمیر نہیں کی گئی ہے ، انہوں نے وضاحت کی کہ مسجد وقف علی اللہ ہوتی ہے ، اور واقف کو بھی وقف کے بعد یہ اختیارنہیں رہ جاتا کہ وہ مسجد کی زمین واپس لے اور وقف بورڈ کا صدریا چیئر مین صرف اس کا منتظم اور نگراںہوتاہے ،مالک نہیں، یہ تولیت کا مقدمہ نہیں بلکہ حق ملکیت کا مقدمہ ہے جس کا فیصلہ اب سپریم کورٹ کو کرنا ہے ، لہذا جمعیةعلماءہند اس بارے میں اپنے پرانے موقف پر قائم ہے ، قانون اورشواہد کی بنیادپر سپریم کورٹ جو بھی فیصلہ دے گا مسلمان اس پر مطمئن ہوگا۔ جمعیةعلماءہند تمام شہریوں سے خاص طور سے مسلمانوںسے اپیل کرتی ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا احترام کریں اور صبر وتحمل کا مظاہرہ کریں۔
تجویز نمبر ۲ :جمعیةعلماءہند کی مجلس عاملہ کا یہ اجلاس کشمیر کے موجودہ حالات پر اپنی تشویش کااظہارکرتاہے ، دفعہ 370کے منسوخی کے بعد سے آج تک ڈھائی ماہ گزرنے کے باوجود جموں وکشمیر کے حالات قابومیں نہیں ہیں ،عام شہریوں کو شدید مشکلات کا سامناہے ، بیماروں کو علاج کی سہولیات میسرنہیں آرہی ہے ، ڈائلیسس کے مریضوں اور دل کی بیماریوں میں مبتلاافرادنہایت کسمپرسی کا شکارہیں ،کورٹ معطل ہیں ، اسکول اور کالج ٹھپ پڑے ہوئے ہیں ، بازار بندہیں روزانہ محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالنے والے دانے دانے کے محتاج ہوگئے ہیں ، اور سیکڑوں نوجوانوں کو ملک کی مختلف جیلوں میں اس طرح قید کردیا گیا ہے کہ کسی کو ان کی کوئی خبر نہیں ہے ،جمعیةعلماءہند کی ورکنگ کمیٹی کا یہ اجلاس اس بات پر یقین رکھتاہے کہ مسائل صرف اورصرف گفت وشنید ہی سے حل ہوسکتے ہیں ، اس لئے حکومت کو
مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے بات چیت کا روازہ کھلا رکھنا چاہئے اور کشمیریوں کو اعتمادمیں لیکر معاملات کو حل کرنا چاہئے ۔طاقت کے بل پر عوامی تحریکوں کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا بلکہ ہمیں کشمیریوں کے دل جیتنے کی اشد ضرورت ہے ؛اس لئے کہ صرف کشمیر ہی نہیںبلکہ کشمیری بھی ہمارے ہیں۔دفعہ 370 کے حوالہ سے جمعیة علماءہند کی مجلس عاملہ کااجلاس یہ محسوس کرتاہے کہ یہ معاملہ کورٹ میں ہے ہمیں امید ہے کہ عدالت سے کشمیریوں کوانصاف ملے گا ا ور ان کے حقوق کے تحفظ کی راہیں ہموارہوںگی ۔
تجویزنمبر ۳: جمعیةعلماءہند کی مجلس عاملہ کا یہ اجلاس وزیر داخلہ امت شاہ جی کے این آرسی کے سلسلہ میں دیئے گئے بیان پر تشویش کا اظہارکرتاہے جس میں انہوں نے غیر ملکی ہندوو ¿ں ، بودھشٹوں ، جینیوں ، سکھوں اور کرسچنوں کو قانون بناکر ہندوستانی نیشنلٹی دینے کاوعدہ کیا ہے اور مسلمانوں کے سلسلہ میں خاموشی اختیارکرتے ہوئے دراندازوں سے ملک کو پاک کرنے کا عہد کیا ہے جس سے یہ واضح ہوتاہے کہ ان کے نشانہ پر صرف مسلمان ہیں ، جمعیةعلماءہند کی مجلس عاملہ وزیر داخلہ حکومت ہند کے اس بیان کو آئین ہند کی دفعہ(14اور 15)کے منافی سمجھتی ہے ، جس کی روسے کسی کو مذہبی ، لسانی اورعلاقائی بنیادوں پر تعصب کا نشانہ نہیں بنایاجاسکتاہے دلیل کے طورپر یہ کہنا کہ ہندوو ¿ں کا دنیامیں کوئی ملک نہیں ہے جبکہ مسلمانوں کے بہت سے ممالک ہیں ، اس لئے غیرمسلموں کو ہندوستانی شہریت دی جائے گی اور مسلمانوں کونہیں ایک بے بنیاد بات ہے ۔یورپ ،امریکہ ،افریقہ وغیرہ اور بعض خلیجی ممالک جو غیر ملکیوں کو شہریت دیتے ہیں وہ بلاتفریق مذہب ہر خواہش مندکو کاغذی کارروائی کی تکمیل کے بعد حق شہریت دیدیتے ہیں ،اس لئے جمعیةعلماءہند کی مجلس عاملہ کا یہ اجلاس ہوم منسٹرکے این آرسی کے سلسلہ میں دیئے گئے بیان کی پرزورمذمت کرتاہے اور اس کو مذہب کی بنیادپر تعصب اور نفرت کی سیاست کا ایک حصة سمجھتاہے ،۔اسی طرح آسام این آرسی کے سلسلہ میں جمعیةعلماءہند کی مجلس عاملہ کا اجلاس ری ویر یفکیشن کے مطالبہ کی شدید مذمت کرتاہے اور حکومت سے مطالبہ کرتاہے کہ سترسال کی محنت اور جدوجہد کے بعد این آرسی کا جو کام مکمل ہوا ہے اس کو ری ویریفکیشن کے ذریعہ ضائع کرکے صوبہ میں امن وامان کے لئے خطرات نہ پیداکئے جائیں ۔
تجویز نمبر۴: جمعیةعلماءہند کی مجلس عاملہ عالم اسلام کے موجودہ حالات کو انتہائی تشویش کی نظرسے دیکھتی ہے ، افغانستان ایک زمانہ سے بڑی طاقتوں کا میدان بناہواہے ، جس نے اس غریب اسلامی ملک کو امن ومعیشت کے اعتبارسے تباہ کررکھا ہے۔ عراق کی موجودہ صورتحال جہاں فقروتنگ دستی کے شکارلوگ جان سے بے پرواہ ہوکر سڑکوں پر اترے ہوئے ہیں انتہائی خراب ہے ۔ تمام دنیاکے مسلمانوں کی دل کی دھڑکن سعودی عرب یمن کے ساتھ جنگ کی بنیادپر ہرطرح سے نقصان کا شکاربناہواہے ۔ فلسطین جہاں عرب کم وبیش 80سال سے ہر طرح کے مظالم کا شکارہیں اور اب قبلہ اول بھی (خدانخواستہ)یہودیوں کے نشانہ پر ہے ، ساری دنیا کے مسلمان بالخصوص عرب بے دست وپاحسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہیںاور کچھ نہیں کرپارہے ہیں۔لیبیا جیساتیل کی قدرتی دولت سے مالامال ملک خانہ جنگی جیسی صورتحال کا سامنا کررہا ہے ۔ مصرکی حکومت بھی موجودہ حالات میں اندرونی خلفشارسے دوچارہے ۔ شام چندسالوں کی متواترخانہ جنگی کی بنیادپر اتناتباہ ہوچکاہے کہ اس کا پہلی شکل پرآنا محال معلوم ہوتاہے ۔ لاکھوںشامیوں کا دنیا کے ملکوں میں رفیوجی بن کر، بچوں اورعورتوں کا بھکاری بن کربربادزندگی گزارنا ہر مسلمان کے لئے انتہائی افسوس ناک اور دل کودہلادینے والا حادثہ ہے ۔اس حالت میں ترکی حکومت کا (جس سے جمعیةعلماءہند کا خلافت عثمانیہ کے زمانہ میںبڑامضبوط رشتہ رہاہے )شام کے بسنے والے کردوں پر حملہ کرنا جمعیةعلماءہند کی نظرمیں ایک ایساقدم ہے جس سے دنیا کی بڑی طاقتوں کومشرق وسطی بالخصوص ترکیا میںبھی اپنے پنجے جمانے کا موقع میسرہوجائے گا ۔ ترکی کی موجودہ حکومت جو اسلامی نظریہ کے پروان چڑھنے کے بہترین موقع کی شکل میں وجودمیں آئی تھی ،پروان چڑھنے سے پہلے مغربی طاقتوں کے کودپڑنے کی بناپر بے دست وپااور بربادہوجائے گی ، یورپ اور امریکہ کے عزائم جو اخبارات میں آرہے ہیں وہ ترکی حکومت کے لئے خدا نخواستہ تباہ کن ثابت ہوسکتے ہیں ۔ اس لئے جمعیةعلماءہند کی ورکنگ کمیٹی مذکورہ خطرے کے پیش نظر دل کی گہرائیوں سے ترکی حکومت کو یہ مشورہ دینا اپنا فرض سمجھتی ہے کہ خداراگردوپیش کے ماحول کو دیکھ کرترکی حکومت فی الفورامن کے ماحول کو پیداکرے اور بڑی طاقتوں کے حرکت میں آنے سے پہلے دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کے بجائے گفت وشنید کے ماحول کو آگے بڑھائے ۔ہماری دعاہے کہ اللہ تمام عالم میں چین وسکون اور امن وامان کے فضاءکو پیدافرمائے ۔ آمین
تجویز نمبر۵تعلیم کے فروغ پر جمعیةعلماءہند کی توجہ روز اول ہی سے رہی ہے ، مکاتب ومدارس کے قیام اوراساتذہ کے انتظام کے ساتھ عصری و ٹیکنکل تعلیم حاصل کرنے والے غریب وضرورت مندطلباءکے لئے تعلیمی وظائف دینے کا مسلسل کام جاری ہے اور اس کے بہترنتائج سامنے آرہے ہیں ۔اسی تسلسل کو باقی رکھتے ہوئے اس سال بھی مجلس عاملہ نے پچاس لاکھ روپے تعلیمی وظائف کے لئے منظور کیا ہے۔
جانئے!مرکزی جمعیت اہل حدیث ہند کی مجلس عاملہ کے اجلاس کون کون ہوا شریک اور کن مسائل پر ہوئی گفتگو
صدرمحترم نے اجلاس مجلس منتظمہ کے التواءکے اسباب تفصیل سے بیان کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات میں مجلس منتظمہ کا اجلاس شمالی ہندستان میں کرنا مشکل نظرآرہا ہے اورجماعتی نظام اورمسائل کے لحاظ سے اس کا انعقاد بھی ضروری ہے لہذا غوروفکر کرکے جگہ کی تعیین ضروری ہے ، اس سلسلہ میں جمعیةعلماءآندھراپریش وتلنگانہ نے حیدرآبادمیں اجلاس کے لئے دعوت دی ، گجرات اورراجستھان کے لوگوں نے دعوت دی ،غوروخوض کرکے مجلس عاملہ نے طے کیا کہ فی الحال حیدرآبادمیں اجلاس مناسب رہے گا، چنانچہ حیدرآبادمیں اجلاس مجلس منتظمہ اور اجلاس عام کے انعقادکا فیصلہ کیا گیا ،جس کی تاریخ کاا علان قانونی کاروائیوں کے مکمل ہونے بعد جلد ہی کیا جائے گا۔ورکنگ کمیٹی نے ریاستی، ضلعی اور مقامی یونٹوں کو متوجہ کیا کہ جمعیة علماءہندکے تعمیری پروگرام خصوصا اصلاح معاشرہ کے پروگرام بطور تحریک چلائیں جس سے معاشرے میں پھیلی ہوئی برائیوں کا سد باب ہوسکے۔اجلاس مجلس عاملہ میں مرحومین خاص کر صاحبزادہ شیخ الحدیث پیرجی مولانا محمد طلحہ کاندھلوی ؒ پیر طریقت مولاناافتخارالحسن کاندھلوی وغیرہ کے انتقال پرملال پر رنج وغم کااظہاراور ان کے لئے دعاءمغفرت کی گئی ، اس میں ایک تجویز منظورکی گئی اجلاس کی کارروائی صدرمحترم مظلہ کی دعاءپر اختتام پزیرہوئی ۔اجلاس میں صدرجمعیةعلماءہند مولانا سید ارشدمدنی ، ناظم عمومی مولانا عبدالعلیم فاروقی ، مولانا سید اسجدمدنی،مولانا سید اشہد رشیدی ،مولانا مشتاق عنفر،مولانا عبداللہ ناصر، مولانا عبدالہادی پرتاپ گڑھی ، مولانامفتی غیاث الدین قاسمی ، مولانا عبدالرشید قاسمی ، مولانا فضل الرحمن قاسمی، الحاج حسن احمد قادری ،الحاج سلامت اللہ ارکان کے علاوہ مولانا حبیب اللہ قاسمی ، مولانا عبدالقیوم قاسمی، مولانا محمد مسلم قاسمی، مولانا محمد خالد قاسمی، مولانا مفتی عبدالقیوم منصوری وغیرہ بطورمدعوخصوصی شریک ہوئے ۔